“دل والے دلہنیا لے جائیں گے” کی ریلیز کو 27 سال ہوگئے ـ
تحریر: ذولفقار علی زلفی
اس فلم نے ہندی سینما میں رومانٹک ژانر کو بدل کر رکھ دیا ـ اس سے پہلے پریمی جوڑوں میں سے کوئی ایک غریب ہوتا تھا جس سے طبقاتی کشمکش اور محنت کش کی معاشی جدوجہد کو بھی رومانس کے حاشیے میں جگہ مل جاتی تھی ـ دولت مند راج و سمرن کی جوڑی نے طبقاتی کشمکش کے تصور کا خاتمہ کرکے محبت کو غریب کے مکان سے نکال کر امیروں کا چونچلا بنا دیا ـ
اس فلم سے پہلے مغربی ممالک میں رہائش پزیر امیر بھارتیوں کو “ٹوڈی” یا “این آر آئی” کے طنزیہ ناموں سے پکارا جاتا تھا جو ذاتی مفاد کی خاطر اپنا وطن چھوڑ گئے ـ اس فلم نے مغرب میں مقیم خوش حال بھارتیوں کو محبِ وطن بنا کر پیش کیا جو پردیس میں رہ کر بھی بھارت کے جاگیردارانہ اقدار و روایات کو بھارتی ثقافت کے نام پر دل میں لئے پھرتے ہیں ـ محبت کے جذبے پر بھی مغربی ممالک میں مقیم خوش حال بھارتیوں کا اجارہ ہوگیا ـ
اس فلم سے پہلے محبت کرنے والے ہیرو کو سرمایہ دارانہ شہری سماج میں نظام سے لڑتے اور اپنا حق چھینتے دکھایا جاتا تھا ـ عموماً لڑکی کے باپ اور کبھی کبھی لڑکے کے باپ کو اس کی طبقاتی برتری کے باعث قابلِ نفرت بنا کر پیش کیا جاتا تھا ـ اس فلم میں دونوں دولت مند باپوں کو مثبت پیرائے میں بھارت کا وفادار اور بھارتی اشرافیہ کی تہذیب کا حامی دکھایا گیا ہے ـ
اس فلم کے ذریعے “میرا بھارت مہان” کا پروپیگنڈہ کرکے ہندی سینما سے مڈل کلاس، محنت کش اور کسان کے مسائل و مشکلات کو غائب کردیا گیا ـ
“دل والے دلہنیا لے جائیں گے” محض ایک رومانٹک فلم نہیں یہ “ہم آپ کے ہیں کون” کا تسلسل اور ایک پورا نظریہ ہے ـ “ہم آپ کے ہیں کون” بنیاد ہے تو یہ اس پر بنی عمارت ـ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس نے مڈل کلاس ہندی سینما کو تباہ کرکے اس کے ملبے پر نیو لبرل سینما کا محل کھڑا کردیا ـ