25

قانون کی بالادستی، : تحریر : اعجاز احمد بلوچ کیچ

قانون کی بالادستی
اعجاز احمد بلوچ کیچ
مہذب معاشروں میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے اور مساوات کے ذریعے ہر شخص کے قانونی حقوق برابر ہیں۔آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے چپٹر میں بنیادی انسانی حقوق کی گارنٹی دئی گئی ہے۔ارٹیکل چھ سے آرٹیکل چھبیس انہی بنیادی حقوق کا احاطہ کرتی ہیں۔
مکران کے عدالتی نظام و عدالتوں پر نظر دوڑائیں تو پہلے عدالتیں نہیں تھی تو لوگ انصاف کے لئے خضدار تک جاتے تھے پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تربت میں عدالتیں قائم ہوئی اسی طرح پنجگور و گوادر میں سیشن کورٹس و دیگر عدالتیں قائم ہوئی۔یہ سب کاوشیں اسوقت کی تینوں ضلع پر مشتمل واحد بار مکران بار ایسوسی ایشن کی کاوشوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
مکران بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر فدا حسین اور جنرل سیکرٹری شکیل احمد زاعمرانی ایڈوکیٹ نے نیشنل پارٹی کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالحئ بلوچ اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مکران بار ایسوسی ایشن کی قرارداد حوالے کیا جسکے مطابق تربت میں ہائی کورٹ کے منظوری و قیام تھا۔
پھر مکران بار ایسوسی ایشن کے ملنگ صفت و درویش جنرل سیکرٹری شکیل احمد زاعمرانی ایڈوکیٹ اور صدر فدا حسین نے اسلام آباد جانے کا ارادہ کیا تاکہ تربت ہائی کورٹ کے خواب کو تعبیر کر سکیں۔وہ اسلام آباد گئے اور وہاں پر سینیٹ کے چیئرمین صابر بلوچ سے ملاقات کی اور بار کا مطالبہ گوش گزار کیا اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملے۔
پھر اٹھارویں آئینی ترمیم میں تربت ہائی کورٹ کی منظوری شامل ہوئی۔
ہائی کورٹ تربت کے قیام کے بعد عوام الناس اور سائلین کو بہت سے فوائد ملے جن میں اپیل کے لیے انہیں کویٹہ جانا نہیں پڑتا پہلے وہ 800 کلو میٹر دور کویٹہ میں اپنے أئینی حقوق کے لئے سفر کرتے۔ان کو ہوٹل کے خرچے و دیگر پریشانیاں جھلینے پڑتے۔اب گھر کی دہلیز پر ان کو اپیل دائر کرنے اور دیگر قانونی ریلیف حاصل ہے۔ہائی کورٹ میں آئینی درخواست،کریمینل اپیل،
سول ریوژن سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔ہائی کورٹ ایک آئینی عدالت ہے اسمیں بہت سے معاملات کو آئینی درخواست دائر کی جاسکتی ہیں۔مفاد عامہ کا تحفظ آئینی درخواست کے تحت ممکن ہے۔
مفاد عامہ کے لئے آئینی درخواست دینے میں کیچ کے ممتاز قانون دان شکیل احمد زاعمرانی ایڈوکیٹ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔انہون نے عوام الناس کے بنیادی حقوق کے لئے ہائی کورٹ تربت میں متعدد آئینی درخواست دائر کی ہیں۔مکران میں زیادہ آئینی درخواست دائر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔انہون نے جن جن معاملات میں آئینی درخواست دائر کی ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
ٹیچنگ ہسپتال تربت جو مکران کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔بنیادی سہولیات کے فقدان ہونے کی وجہ سے شکیل احمد زاعمرانی ایڈوکیٹ نے آئینی درخواست دائر کی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ ٹیچنگ ہسپتال تربت میں بنیادی طبی سہولیات جن میں ادویات،مشین و دیگر آلات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ڈینگی وائرس کے تدارک اور مریضوں کو بہتر ہیلتھ کئیر دینا،تربت پارک ہوٹل سانحے میں
گیس سلنڈر کے پھٹنے پر برن سینٹر یا برن یونٹ کا قیام،کیچ کے اسکولوں میں سہولیات کی عدم موجودگی،تربت شہر میں سڑکوں کی تعمیر ،گرلز پولی ٹیکنیک کی فعالیت،سری کہن پل کی تعمیر،اے جی آفس کا قیام،
پولیس تھانے میں اضافے،سری کہن میں سبزی منڈی و گوشت منڈی کا قیام،محکمہ آثار قدیمہ ڈیپارٹمنٹ میں آسامیوں کو تشہیر کرنے،تمپ روڈ،تمپ کالج، تمپ میں آر ایچ سی میں سہولیات کی فراہمی ،تمپ میں اسکولوں میں سہولیات کی عدم دستیابی،گیس سلنڈر واقعے میں طلباء وطالبات کو معاوضے کی ادائیگی،گرلز ڈگری کالج تربت میں بس کی فراہمی،مکران ۔میڈیکل کالج کی فعالیت،
حالیہ بارشوں سے کھجور کے نقصانات کا ازالہ،تربت ٹو پسنی روڈ،تربت شہر میں واکنگ ٹریک،
موبائل ڈیٹا کی بندش،لوڈ شیڈنگ،تمپ میں محکموں کی فعالیت سمیت متعدد مفاد عامہ کے تحفظ کے لئے آئینی درخواست دائر کی ہیں جس سے عوام الناس کو بہت سے ریلیف ملا ہے۔یہ تمام تر کاوشیں اجتماعی سوچ کی آئینہ دار ہیں اور عوام کو ریلیف اور بہتر بنیادی سہولیات کی فراہمی میں معاون ثابت ہوئی ہیں۔
آئینی عدالت بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ہیں اور عوام کے انسانی حقوق کی محافظ ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں