22

اسٹبلشمنٹ کا سیاسی کردار اور نئی بحث…..!!

اسٹبلشمنٹ کا سیاسی کردار اور نئی بحث

تحریر: الطاف بلوچ

آج کل میڈیا،سوشل میڈیا اور مختلف نجی محفلوں میں یہ بحث چھڑ چکی ہے کہ ملک کی اسٹبلشمنٹ غیر سیاسی ہوگئی ہے ،اس بات پر اُس وقت زیادہ بحث ہونے لگی جب سابق آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اپنی آخری تقریر میں کہا کہ ہم فروری 2021 سے فیصلہ کرچکے ہیں کہ اب ہم سیاسی انجنئیرنگ کا حصہ نہیں بنیں گے،گویا اس اعلان میں یہ بات بھی پوشیدہ تھی کہ ملکی اسٹبلشمنٹ اس سے پہلے سیاست میں مداخلت کرتے آرہے ہیں.اس اعلان کے بعد کھل کر میڈیا میں اسٹبلشمنٹ کے کردار سے متعلق بحث ہونے لگی.اگر چہ ملک کی سیاسی بیٹھکوں میں اس بات پر ایک طرف خوشی کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اب اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار ہے اور کسی قسم کی سیاسی انجنیئرنگ میں ملوث نہیں ہوگی، دوسری جانب وہ اندر ہی اندر اسٹبلشمنٹ کے کردار کا خواہاں بھی ہیں.ایک جانب عمران خان کا ٹولہ ہے جو اس تاک میں ہے اور مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کہیں نا کہیں ان کی حمایت کریں تاکہ ایک بار پھر سیاسی آلودگی کو بڑھاوا ملے،تو دوسری جانب پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اس امید میں ہیں کہ اسٹبلشمنٹ ہم پر ہاتھ رکھ دے اور ہماری حمایت کرے تاکہ ہم عمران خان کو ملکی سیاست سے مائنس کر سکیں.اس سارے منظر نامے پر یہ نظرآ رہا ہے کہ ایک طرف اس ملک کی سیاسی قوتیں اسٹبلشمنٹ کو غیر سیاسی اور غیر جانبداری کا بیانیہ لیکر آگے بڑھ رہی ہیں تو دوسری جانب اسٹبلشمنٹ کو خود سیاست میں مداخلت کا خواہاں بھی ہیں کہ اس شرط پر وہ مداخلت کرے کہ صرف ہمیں سپورٹ کرے..حالات کے دُھند میں ہر چیز دھندلا سا اور مشکوک دکھائی دے رہی ہے.میرا نہیں خیال کہ اس ملک کی وہ سیاسی کھیپ جو خود کسی قسم کی کارکردگی خود سے نہ دکھا سکے،وہ بغیر اسٹبلشمنٹ کے اقتدار میں آسکے،اگر اسٹبلشمنٹ خود سنجیدگی سے سوچے کہ اسے سیاسی میں مداخلت نہیں بھی کرنی،تو بھی سیاست دانوں کو خود چھین نہیں آتا اور اسے گھسیٹ کر سیاست میں خود لانے کی خواہش رکھتے ہیں.
دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کا اس وقت اہم ہدف ملکی معاشی صورتحال کو سنبھالنا ہے،اور سیاست دانوں کو اقتدار کی فکر لاحق ہوچکی ہے تبھی تو پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم والے آمنے سامنے ہیں.لیکن اس وقت اسٹبلشمنٹ نے واضح کردیا ہے کہ اسے سیاسی انجینئرنگ میں انگیج نہ کیا جائے بلکہ سب ملکر ملکی معاشی نظام کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کریں اور انتظار کریں تاکہ ملکی معیشت سنبھل جائے،اور وقت پر الیکشن ہوں،تب ہی تو عمران خان نئے آرمی چیف کے آنے کے بعد خاموش ہوئے کیونکہ اسے یہ لگ رہاتھا اور شاید یہ پیغام کہیں سے ملا ہے کہ اب سیاسی آلودگی کا سلسلہ بند کیا جائے اور معیشت پر تمام صلاحیتیں خرچ کی جائیں بصورت دیگرحالات ٹھیک نہیں رہیں گے…؟ ہم نے پنجاب میں پی ڈی ایم کی جانب سے ق لیگ کے وزیراعلیٰ پرویز الہی کے خلاف عدم اعتماد ووٹ کے وقت دیکھا کہ کس طرح اسٹبلشمنٹ نے پرویز الہٰی کو سپورٹ کیا اور اس کی وزارت اعلیٰ کو بچایا،دوسری جانب عمران خان نے پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری پر پرویز الیٰ کے دستخط لیکر گورنر پنجاب کو بھیج دی.بعض مبصرین کا خیال ہیکہ اسٹبلشمنٹ کو مستقل غیر سیاسی رہنے کیلئے آئندہ الیکشن تک سیاسی ہونا پڑیگا تاکہ وہ باجوہ داکرائن کے مبینہ باقیات کا خاتمہ کرکے نئے سرے سے سیاسی ماحول کو سیاست اور جمہوریت کیلئے سازگار بنا سکیں لیکن بعض حلقے اب بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان جیسے کمزور سیاسی،معاشی ملک میں مضبوط اسٹبلشمنٹ کو غیر سایسی کرنے سے اس کی بقا کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں،تاہم سینئر اور سنجیدہ سیاست دان اور جمہوریت دوست روشن فکر حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو جتنے مسائل کا سامنا ہے وہ غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت کے سبب ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو مکمل جمہوری ملک بنایا جائے.
ہم جب ملک بھر کی سیاست میں اسٹبلشمنٹ کے کردار کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچستان میں بھی اسٹبلشمنٹ غیر جانبدار رہیگی یا اسکا کسی قسم کا کوئی کردار نہیں رہیگی.بلوچستان کی مخصوص سیاسی حالات کے پیش نظر یہ کہنا کہ یہاں پر سیاسی اور عسکری اسٹبلشمنٹ مکمل طور پر غیر جابندار ہوگی..،میرے خیال میں یہ تجویز بھی قابل قبول تجویز نہیں رہیگی.البتہ شاید یہ ہو کہ بلوچستان میں بی اے پی کی طرح کا تجربہ شاید نہ ہو اور بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتوں کو اہمیت دے دی جائے.تا ہم بلوچستان ہو یا دیگر صوبے،سیاسیت دان کہتے تو ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کو کوئی کردار ادا نہیں کرنا چاہیئے لیکن درحقیقت انکی خواہش ہے کہ اسٹبلشمنٹ اپنا کردارختم نہ کرے بلکہ ہماری مدد کرے، کیونکہ مزکورہ سیاست دانوں کی سیاسی نرسری اسی ماحول میں ہوئی ہے اور وہ ان کے بغیر کسی طور بھی نہیں رہ سکتے.
ہم نے بلوچستان میں دیکھا کہ ،باپ، پارٹی کے کئی ایم پی ایز پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے.جس پر بی این پی کے رہنماوں اور نیشنل پارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا ہے.ان کے مطابق بعض الیکٹیبلز کا اڑ اڑ کر اس طرح پی پی پی میں جانے سے شاید ان شکوک و شبہات کو تقویت ملیگی کہ بلوچستان میں اسٹبلشمنٹ اب بھی پوری قوت سے سیاسی انجنیئرنگ میں‌لگی ہوئی ہے.جس سے یہاں کی لوکل پارٹیزکو دیوار سے لگا کر بلوچستان کی مخصوص سیاسی منظر نامے میں بے چینی پیدا کرکے ،حالات کو مزید اس نہج میں لے جایا جائے جہاں سیاسی ورکرز کا جمہوری سیاست سے رشتہ توڑکر غیرجمہوری طریقہ پر جانے کیلئے مجبور کیا جاسکے جو کہ یہاں کی امن و امان کیلئے انتہائی تشویشناک عمل ہے.بعض سیاسی مجالس میں بہت سے پارلیمانی پارٹیز کے لیڈرز نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ اگر بلوچستان میں سیاسی انجنیئرنگ اسی طرح جاری رہی اور یہاں کی قوم پرست پارٹیز کو دیوار سے لگا دیاگیا تو شاید ورکرز پارلیمانی سیاست سے مایوس ہوکر دوسرا راستہ اختیار کرلیں جو تشیویشناک ہوگی. اسی لئے بلوچستان کے مخصوص اور حساس صورتحال کو دیکھتے ہوئے بار بار باپ پارٹیز یا کنگ پارٹیز بنانے کے اثرات انتہائی نقصا دہ ثابت ہونے کے امکانات زیادہ ہیں.لیکن اس مرتبہ قیاس یہ کیا جارہا ہے کہ وفاقی پارٹیز،مذہبی جماعتوں اور نیشنلسٹ جماعتوں پر مشتمل کھچڑی نما حکومت تشکیل دی جائے.لیکن یہاں الیکشن سے ایک روز پہلے بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کل واقعی یہ ہوگا یا نہیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں