سردار صاحب دوغلہ پالیسی نہیں چلتا
تحریر: وسیم سفر، تربت
سردار اختر جان مینگل صاحب کو اب اپنا پوزیشن واضع کرنا ہوگا اسی طرح دو غلا پالیسی چلتا نہیں کہ دھواں دار تقاریر سے خود کو محدود رکھ کر بلوچستان میں ریاستی اداروں کی ناروا سلوک ظلم جبر بربریت ساحل وسائل کی لوٹ مار بلوچ قوم کی مرضی منشاء کے بغیر بلوچستان کے معدنیات کی سودابازی غیر ملکی سرمایہ داروں کیساتھ ان سے خود کو لاتعلق رکھ کر باقی سروکار نہیں ایک طرف خود کو بلوچستان بلوچ قوم کا حقیقی وارث سمجھتے ہو دوسری طرف بلوچستان B A P سرکار اسمبلی میں قرارداد پاس کر کے 245 کے تحت بلوچستان میں پہلے سے لا محدود تعداد ميں موجود فوج مزید فوجی طلب اگر بلوچستان سرکار کی اس عمل 245 نفاز کااگر حمایتی نہیں تو وفاقی وصوبائی اسمبلی شامل خاموش کیوں ہیں وگر نہ صاف صاف بلوچستان کے دیگر نواب سردار بزنجو جام کی طرح اپنا سمت درست کر کے ظاہری طور پر حمایتی رہے بلوچستان بلوچ قوم کو اس سے کوئی شکوہ نہیں بلوچ بلوچستان کو عجیب تماشائی بنا کر اسی طرح کے آستین کے سانپوں نے اسی نہج تک پہنچایا
مینگل سرکار کے کارناموں کو اگر دیکھا جائے سردار عطاء اللہ خان کی جانے کے بعد تو اس میں ایسا کوئی کارنامہ آپ کو نظر نہیں آسکتا جو بلوچ بلوچستان کے فائدہ مند ہو
28 مئی 1998 چاغی راسکوہ پر ایٹمی دھماکے
آرمی جنرل کی ایسٹیکشن کے حق ميں ووٹ
چوری چھپکے سے بلوچستان BAP سرکار بزنجو کے حصہ دار
عمران کے دور ميں چھ نکات
پی ڈی ایم کے گورنمنٹ میں وفاقی کابینہ کی وزارتیں
بلوچستان گورنر شپ
مسنگ پرسنز کے نام پر ریاستی اداروں کی سرپرستی ميں بنائے جانے والے فراڈ کمیشن کے سربراہ
نام نہاد فرینڈلی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ریکوڈک کا معاہدہ بیرونی کمپنی بیرک گولڈ کیساتھ
آج ریاستی اداروں کی سرپرستی سے بنائے گئے سلیکٹد بلوچستان باپ گورنمنٹ کی طرف سے بلوچستان ميں 254 کے نفاز
یہ تمام کے تمام احسانات جناب سردار مینگل صاحب آپ نے بلوچستان بلوچ قوم کی تشخص بقاء کو،مٹانے کیلئے ریاستی اداروں کا ہاتھ بٹھایا قیامت تک نہیں بھولیں گے بلوچستان کے مظلوم محکوم اقوام
آخر کب تک جناب سردار مینگل صاحب آپ یہ بلوچستان کے محکوم مظلوم عوام کو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دھوکے ميں رکھا جائے گا
ہم آپ اور شفیق مینگل کو کس نظر سے دیکھا جائے شفیق مینگل بلوچوں کو زندہ درگور کر کے توتک بلوچستان کے دیگر گردونواح میں جعلی مقابلے ميں شہید کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیتا ہے
آپ کے آستین میں تیز دھار چھری چھپا کر مصنوعی ہمدردی دکھا کر خاموشی کیساتھ گلاب کے پھول میں قاتل زہر لگا کر سونگھنے سے بلوچوں کی نسل کشی کر رہے ہو لیکن ظاہری دشمنوں سے انسان خود کو بچانے کا تدابیر کر سکتی ہیں لیکن اندر کے دشمن سے بچنا ناممکن ہو
اب آپ اور قدوس بزنجو ضیاء لانگو سردار کھیتران جام کمال میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے خدارا اب یہ مصنوعی ہمدردی دکھانے کا ڈرامہ بازی بند کریں قومی اسمبلی میں ایک دھوان دار تقاریر کر کے پر اسکی بولی اسلام آباد کے محلوں میں لگائی جاتی ہیں اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ کی قاتل زہر حل حل کے پھول سے لوگ ان ظاہر دشمن کی گولی سے مریں کم از کم انہیں شہید تو تصور کیجاتی ہیں گلاب کے پھول کے زریعے لوگوں کو مار مار کر پر انہیں طبی موت قرار دی جا رہی ہے قاتل ایک ہو لیکن طریقہ واردات مختلف ہیں
ایک تو اینٹرنیشنلی طور پر چند ایسے لوگ موجود ہیں جو بلوچ کمیونٹی کو اکھٹے ہونے نہیں دے رہا ہے آج تک بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام انہی عناصر کی بلوچ قوم کیساتھ ڈرامہ بازیوں کو دیکھ کر بلوچستان بلوچ قوم پر ہونے والی ریاستی اداروں مظالم پر توجہ نہیں دے رہا ہے خدارا اب بس کریں اپنی عارضی مفادات انا پرستی کی وجہ سے بلوچوں کو تباہی بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا آپ لوگوں آج اگر بلوچستان بلوچ قومی ایشوز اگر عالمی دنیا کے سامنے اجاگر کیا مادر وطن بانک کریمہ شہید شاری بلوچ شہدا کی لہو کا بدولت ہے کوئی میر نواب سردار ٹکری کی مرہون منت نہیں ان لوگوں نے ہروقت مظلوم اقوام کی لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر ضمیروں کا سودا کیا اگر جو بلوچ قومی رہنما سردار عطاء اللہ نواب اکبر بگٹی نواب خیر بخش مری کی طرح ڈٹ گیا یا تو وہ شہید کیا گیا یا تو زندگی بھر دوبارا انہیں اقتدار میں آنے نہیں دیا گیا
اب بلوچستان بلوچ قوم کو شعوری بنیادوں پر بیدار ہو جانا چاہیے یہ اپنی وسائل پہ فیصد فیکج ہماری کام کیلئے نہیں جو ہر کوئی اسے اپنی کامیابی کے کرشمہ قرار دے رہے ہیں اپنی اصل اور حقیقی مقاصد کو سمجھ کر حقیقی بنیاد پر بیدار ہونا چاہیے کسی میر سردار نواب کی منتظر نہیں ہونا کہ وہ کس طرح اشارہ دینگے بلوچستان بلوچ قوم کی تشخص بقاء کی خاطر بلوچ شہدا کی قربانیاں ہم سب کیلئے مشعل راہ ہیں.